۳۰ شهریور ۱۴۰۳ |۱۶ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 20, 2024
News ID: 402278
14 ستمبر 2024 - 06:00
عقیدۂ تبرا و برائت

حوزہ/اسلامی تعلیمات و معارف میں تبرا و برائت کی بحث و گفتگو کو ولایت و محبت اہلبیت علیہم السلام کے ہمراہ قرار دیا جاتا رہا ہے اور دونوں مسلمہ اصول پر ہمیشہ برابر سے بحث و تحقیق اور تاکید ہوتی رہی ہے، یہ دونوں اصول ایک دوسرے کی نسبت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔

تحریر: ابو علی اصفہانی

حوزہ نیوز ایجنسی |

برائت کا مطلب:

برائت یعنی اللہ و رسول اور اہلبیت رسول کے دشمنوں سے بیزاری اور ان کی روش نیز طرز زندگی سے دوری اختیار کرنا ۔ قرآن واحادیث کی روشنی میں دین مبین اسلام میں جو منزلت ولایت یعنی اللہ و رسول اور اہلبیت رسول کی سر پرستی اور تصرف کا ہے وہی قدر و منزلت، براءت و بیزاری کا بھی ہے، تو جس طرح اہل دین مذہب کے ہر محاذ اور ہر منزل میں ولایت سے تمسک ، توجہ اور رغبت رکھتے ہیں، ضروری ہے کہ اسی طرح اللہ و رسول اور اہلبیت رسول کے دشمنوں سے براءت اور بیزاری کا بھی ثبوت پیش کریں۔

جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ )سوره نحل آیت ۳۶(

یعنی خدائے تعالیٰ کی عبادت کرو اور سرکش و طاغوت سے دوری اختیار کرو۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السَّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ) سوره بقره آیت ۲۰۸

اے صاحبان ایمان تم سب صلح و آشتی میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے راستہ کی پیروی نہ کرو۔

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :ہم اہلبیت کی ولایت اور ہمارے دشمنوں سے براءت و بیزاری اختیار کرنے سے دین کامل ہوتا ہے۔ بحار الانوار ج ۵۸،۲۷ یا دوسری جگہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :آیا دین محبت و براءت کے سوا اور کچھ ہے؟

بعض روایت میں وارد ہے کہ بغیر براءت و بیزاری کے ولایت کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:وہ شخص جھوٹ بولتا ہے جو کہتا ہے کہ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں، جبکہ وہ ہمارے دشمنوں سے بیزاری اختیار نہیں کرتا، اس لئے تمام مؤمنین پر فرض ہے کہ وہ اوصیاء اور اولیاء خدا سے دل میں محبت اور عقیدہ قائم کریں اور خدا و رسول اور آل رسول علیہم السّلام کے دشمنوں سے بغض اور نفرت بھی کریں اور اس عقیدۂ حقہ کا جو تقاضا بنتا ہے یعنی حب و بغض کو حالات و شرائط کے فراہم ہونے پر اظہار بھی کریں اور عملی طور سے ولایت و برائت کا ثبوت بھی پیش کریں۔

کتابوں میں دشمنانِ دین سے بغض کے سلسلے میں بے شمار روایتوں میں تاکید ہوئی ہے اور اس پر اجر و ثواب کی جو بات کہی گئی ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو دشمنانِ اہلبیت علیہم السلام خاص طور سے امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دشمنوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور دشمنانِ خدا سے برائت ہیں۔

خداوند عالم اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی جانب سے ایسی بے شمار عنایتیں اور الطاف و کرامات ان لوگوں سے مخصوص رہی ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح دشمنانِ خدا سے اپنی نفرت و بیزاری کا اظہار کیا ہے اور اس کے سبب کتنی حاجتیں مؤمنین کی پوری ہوئی ہیں۔

اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ خاندان عصمت و طہارت سے توسل و تمسک کا ایک بہترین راستہ ان کے دشمنوں سے برائت اور تبرا کرنا ہے۔

فصل اول

برائت کی برکتیں اور روایتیں

لعنت، معرفت خدا اور حقیقت ایمان تک پہونچنے کا ذریعہ ہے انسان کی خلقت اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کی خاطر ہوئی ہے اور صحیح بندگی و اطاعت اسی وقت ممکن ہے جب خداوند عالم کی معرفت و شناخت ہوگی اور جتنی زیادہ انسان کو خدا کی معرفت ہوگی اتناہی عبادت و بندگی کا درجہ بلند ہوگا اور حقیقت ایمان کامل ہوگی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ معرفت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے اور کیسے وہ اپنے اندر حقیقت ایمان کو کامل تر بنا سکتا ہے۔

اس کا جواب امام محمد باقر علیہ السلام نے ابوحمزہ ثمالی کو تعلیم فرما کر ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ ابوحمزہ ثمالی کہتے ہیں: امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوحمزہ ( واقعی ) خداوند عالم کی بندگی و اطاعت وہی شخص کرتا ہے جو دشمنانِ خدا سے براءت اس کی معرفت رکھتا ہے۔ اور جو معرفت نہیں رکھتا گویا وہ غیر خدا کی عبادت و بندگی کر رہا ہے۔ جیسا کہ تم مخالفین کو گمراہی میں دیکھ رہے ہو ۔

ابو حمزہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : خداوند عالم آپ کو جزائے خیر دے اوریہ بتائیے معرفت خدا کیا چیز ہے؟حضرت نے فرمایا: خدا کی معرفت یعنی امیر المؤمنین علی بن ابی طالب عليها السلام اور ان کے بعد ہادیان برحق کی اطاعت و پیروی کرنے اور ان کی اقتدا و امامت میں زندگی گزار نے ان کے دشمنوں سے براءت و بیزاری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تصدیق کرنا ہے ۔ ابو حمزہ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ کس عمل کے ذریعہ اپنے ایمان کو کامل کر سکتے ہیں؟فرمایا: خدا کے دوستوں سے دوستی کرو اور خدا کے دشمنوں سے دشمنی کرو۔ اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے (اے ایمان والوں سچوں کے ساتھ ہو جاؤ )

ابو حمزہ نے کہا میں نے عرض کیا : خدا کے دوست کون لوگ ہیں؟ فرمایا : خدا کے دوست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی حسن و حسین و علی بن الحسین اس کے بعد یہ سلسلہ مجھ پر ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد میرے فرزند جعفر علیہ السلام اور اشارہ فرمایا اپنے بیٹے جعفر صادق علیہ السلام کی طرف کہ وہیں تشریف فرما تھے۔ (اس کے بعد فرمایا) جو شخص ان سے محبت کرے گا وہ خدا کے دوستوں سے دوستی کرنے والا اور سچوں کے ساتھ ہونے والا قرار پائیگا۔ جیسا کہ اللہ نے اسے حکم دیا ہے۔ ( ابوحمزہ کہتے ہیں ) میں نے عرض کیا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ خدا کے دشمن کون لوگ ہیں ؟فرمایا: وہ چار ہیں۔عرض کیا: یہ کیا ہیں؟فرمایا: ---- اور ہر وہ شخص جو ان کی پیروی کرے اور ان کے راستہ پر چلے لہذا جو ان سے دشمنی کرے گا گویا وہ دشمنان خدا سے بھی دشمنی کرتا ہے۔ )بحار الانوار جلد ۲۷ / ۵۷، ج ۱۶ ، فرحۃ الزہرا علیہا السلام(

ملاحظہ

(1) امام باقر علیہ السلام نے روایت کے ذیل میں بادیان برحق کے تعارف میں فقط اپنے بیٹے امام جعفر صادق علیہ السلام تک کے سلسلہ کے نام کو پیش فرمایا ہے۔ یہ شاید اس لئے تھا کہ ابوحمزہ ثمالی چاہتے تھے کہ ظاہری شناخت، معرفت پیدا ہو جائے کہ خدا کے دوستوں میں ان کے عہد تک کون دوستداران خدا میں شمار ہوتا ہے۔ اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ بحسب ظاہر اس وقت بقیہ امام دنیا میں ظاہر بھی نہیں ہوئے تھے۔ورنہ تمام ہادیان برحق کی پیروی اور ان سے محبت واجب اور شرط ایمان ہے۔

جیسا کہ متواتر روایتوں سے ثابت ہوتا ہے۔

(۲) دوسری بات یہ ہے کہ ممکن ہے روایت میں چند کلمات کے بارے میں بعض قاری کرام کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ وہ چار کون ہیں؟ تو یہ اہل علم کے درمیان کوئی پوشیدہ نہیں ہے، اور اسے بحار الانوار جلد ۵۸/۲۷ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

عبادت پروردگار اور ولایت اہل بیت ، بغیر براءت کے قبول نہیں ہے-

براءت کے جملہ آثار و برکات میں ہے کہ براءت کے سبب ولایت قبول ہوگی اور ولایت کے سبب عبادت و بندگی قبول ہوگی ۔ جیسا کہ روایت میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

سلیمان اعمش امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے پدر بزرگوار سے انھوں نے امیر المؤمنین علیہ السلام سے اور حضرت علی نے پیغمبر سے نقل فرمایا کہ:اے علی ! تم مؤمنوں کے امیر اور متقیوں کے امام ہو۔ اے علی ! تم سردار اوصیاء اور انبیاء کے علوم کے وارث ہو۔ اور صدیقین و سابقین میں تم سب سے افضل و برتر ہو۔ اے علی ! تم عالمین کی عورتوں کے سردار کے شوہر اور افضل و سردار انبیاء کے جانشین ہو۔ اے علی ! تم صاحبان ایمان کے مولا اور میرے بعد لوگوں پر خدا کی حجت ہو۔ جو تمہاری پیروی کرے گا اس کے لئے جنت ہے اور جو تم سے دشمنی کریگا وہ جہنم کا مستحق ہوگا۔

اے علی ! اس ذات کی قسم جس نے مجھے نبی بنایا اور تمام لوگوں میں انتخاب فرمایا اگر کوئی شخص ہزار سال تک عبادت پروردگار بجالائے مگر تمہاری اور تمہارے بعد بادیان برحق کی ولایت نہ ہو تو اس کی عبادت قابل قبول نہیں ہوگی اور تمہاری ولایت بھی اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگی جب تک کہ تمہارے اور تمہارے بعد بادیان برحق کے دشمنوں سے براءت و بیزاری اختیار نہ کرے۔ جبرئیل نے مجھے اس بارے میں خبر دی ہے۔

فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْ مِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرُ )سورہ کہف آیت ۲۹(

جو شخص ایمان لانا چاہتا ہے ایمان لائے اور جو انکار کرنا چاہتا ہے قبول نہ کرے۔ )کنز الكراجکی / ۱۸۵(

عید زہر اسلام علیہا۔ اور اللہ کی برکتیں

نو ربیع اول جو عید زہرا کے نام سے مشہور ہے۔ وہ ایسا دن ہے جس دن دشمن اہل بیت کی ہلاکت کا دن مانا جاتا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس دشمن کے قتل کی تاریخ کے بارے میں شیعہ و سنی دونوں مورخین و محدثین میں اختلاف موجود ہے۔ عالم تشیع کے عظیم الشان محدث بزرگ مرحوم علامہ مجلسی اعلی اللہ مقامہ اس بارے میں فرماتے ہیں :شیعہ وسنی علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ وہ ۲۶ رذی الحجہ میں قتل کیا گیا ہے اور بعض نے ۲۷ / ذی الحجہ میں نقل کیا ہے۔ اور دونوں قول کی دلیل مورخین کے اقوال ہیں۔

اور معتبر کتابوں سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے جو آج کل شیعوں کے درمیان مشہور ہے۔ یعنی اور ربیع اول کو اس کی ہلاکت ہوئی ہے اور قدیم شیعہ محدثین میں بھی یہی مشہور رہا ہے۔ )تاریخ قتل بن الخطاب ۴-۵(

بہر حال ۹ ربیع اول اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے نزدیک انتہائی فضیلت رکھتا ہے اور وہ اس دن عید قرار دیتے ہوئے جشن و سرور کا اہتمام فرماتے تھے۔ اور اپنے شیعوں اور چاہنے والوں کو حکم فرماتے کہ اس دن بقیہ عیدوں کے مانند جشن کا اہتمام کریں اور شادر ہیں ۔ اس دن کو اس قدر عظیم عید کا دن قرار دیتے ہیں کہ اس کا نام ہی غدیر دوم قرار دیا ہے۔ اور یہ بات یاد رہے کہ خود عید غدیر کو روایتوں میں عبید اللہ اکبر“ کے عنوان سے یاد کیا ہے۔

اس دن کی منزلت و فضیلت میں ہے کہ اس دن کو خداوند عالم نے لوگوں کے لئے خاص طور سے شیعوں کے لئے برکت قرار دیا ہے۔ اور اس قدر فضیلت بیان ہوئی ہے کہ انسان اس دن کے انتظار میں ایام شماری کرتا ہے اور دعا کرتا ہے تا کہ اس دن کی برکت و عنایت درک کر سکے۔

اس سلسلہ میں ایک تفصیلی روایت نقل ہوئی ہے جس کا بعض حصہ اپنے قارئین کے لئے پیش کرتا ہوں۔

علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ اپنے اسناد کے ساتھ بحار الانوار میں نقل فرماتے ہیں۔ محمد بن علاء ہمدانی (ابن طاؤس زاد المعاد اور تاریخ قتل ابن خطاب کے لئے اہم راوی میں شمار ہوتے ہیں )۔ اور یحیی بن محمد بن جریح بغدادی احمد ابن اسحاق تھی سے اور وہ امام ہادی علیہ السلام اور امام اپنے پدر بزرگوار سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طویل حدیث میں حذیفہ بن یمان سے فرمایا :

حق تعالیٰ نے مجھے وحی فرمائی کہ ... اے محمد ! (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بیشک اپنے ساتوں آسمان کے ملائکہ کو حکم دیا ہے کہ اس دن (نو ربیع اول ) کو آپ کے چاہنے والوں اور شیعوں کے لئے عید قرار دیں کہ اس دن وہ ملعون واصل جہنم ہوا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ وہ بیت المعمور کے سامنے میری کرسی کرامت نصب کریں اور میری حمد و ثنا کریں اور آپ سے محبت کرنے والوں کے لئے طلب بخشش کریں اور اعمال لکھنے والے ملائکہ کو آج سے تین دنوں تک کے لئے لوگوں سے رفع قلم) مراد وہ اعمال ہیں جو نگاہ شریعت میں حرام اور نا جائز نہیں ہیں اس سے سوء تفاہم نہ ہو کہ گناہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بجا ہوگا حسنات الابرار سيئات المقربین کی پابندی اٹھالی ہے ۔ ( مترجم )( کا حکم دیا ہے اور چاہتا ہوں کہ ان کے گناہ نہ لکھے جائیں اور یہ عظیم عنایت آپ اور آپ کے وصی کی خاطر قرار دیا ہے۔ اے محمد ! (صلی کی اہم اس دن کو آپ کے لئے اور آپ کے اہل بیت اور ہر اس شخص کے لئے جو مؤمنین میں ان کی پیروی کرنے والا ہے سب کے لئے عید قرار دیا ہے۔ اپنی عزت و جلال اور اپنی منزلت و مقام کی قسم ہے اس دن کو عید قرار دینے والے کو وہ ثواب عطا کروں گا جو ثواب عرش کے دور کو احاطہ کرنے والے کو عطا کرتا ہوں ۔ اور اپنے اقرباء اور رشتہ داروں کی شفاعت کرنے کی صورت میں اس کی شفاعت قبول کروں گا ، اور اگر وہ اس دن اپنے اور اہل و عیال کے لئے وسعت و کشادگی کے اسباب فراہم کرتا ہے تو اس کے حال میں اضافہ کروں گا۔ اور ہر سال اس دن آپ کے شیعوں میں سے ہزاروں ) زاد المعاد اور دیگر کتابوں میں ایک لاکھ اور اس سے زیادہ کا ذکر ہے۔( لوگوں کو آتش جہنم سے آزاد کروں گا ، ان کے اعمال قبول کروں گا ان کے گناہ کروں گا ) علامہ حلی اس روایت کو دو طریقہ سے نقل فرماتے ہیں (۱) ایک شیخ حسن ابن سلیمان ان کی کتاب احتضر سے (۲) دوسرے علی بن طاؤس ان کی کتاب زوائد الفوائد سے ۔ پہلی روایت کے طریقہ کو بحار جلد ۳۱ / ۱۲۰ اور دوسرے طریقہ کو بحار جلد ۳۵۱/۹۵طبع بیروت میں نقل کیا ہے۔ اس طرح مرحوم نے اپنی کتاب زاد المعاد باب ۸ ص۱۳۵۲ اور رسالہ تاریخ قتل عمر بن الخطاب ص سے میں اس روایت کو نقل کیا ہے یہ واضح رہے کہ دوسرے مصادر میں اختلاف ہے جس کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔( ..... الخ

لعنت کرنے والوں کے لئے ملائکہ دعا کرتے ہیں۔

اس سلسلہ میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے پدر بزرگوار نے اور ان سے ان کے پدر بزرگوار نے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہم اہلبیت علیہم السلام کی نصرت و مدد کرنے سے عاجز ہے تو اسے چاہیئے کہ تنہائی و خلوت میں ہمارے دشمنوں پر لعنت کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کی آواز کو زمین سے عرش تک تمام ملائکہ تک پہنچاتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص تک ملانا ہمارے دشمنوں پر لعنت کرتا ہے تو وہ ملائکہ اس کی ہمراہی کرتے ہیں اور وہ بھی مؤمن کے ساتھ لعنت کرنے میں شریک ہو جاتے ہیں اور لعنت کرنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں۔ اور بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں۔

اے خدایا ! اپنے اس بندہ پر درود نازل فرما کہ جو کچھ اس کی قدرت میں تھا انجام دیا اگر اس سے زیادہ اس کی قدرت میں ہوتا تو وہ بھی انجام دیتا۔ خداوند عالم کی جانب سے ندا آتی ہے: تمہاری دعاؤں کو قبول کیا اور آواز بھی سن لی ، اور ارواح کے درمیان اس بندہ کی روح پر درود نازل کیا اور اسے اپنے نیک بندوں اور برگزیدہ لوگوں میں قرار دیا۔ ا تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام ۴۷ / رقم ۲۱ / بحار الانوار ج ۲۷ / ۲۲۳ ۱۱۵ / ومستدرک الوسائل ج ۴ / ۴۱۰ رقم ۳/ وفرحة الزهرا علیہ السلام/ ۸۵ ۔

لعنت کرنے سے ہزاروں درجے اور نیکیاں بڑھتی ہیں اور ہزاروں گناہ معاف ہوتے ہیں۔

ابوحمزہ ثمالی امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں: اگر کوئی شخص ایک مرتبہ جبت و طاغوت پر لعنت بھیجتا ہے تو اللہ تعالی اس کے نامہ اعمال میں ستر ہزار ہزار ( ستر میلیون ) نیکیوں کا اضافہ کرتا ہے، اور اتنی ہی مقدار میں گناہوں کو مٹاتا ہے۔ اور اتنے ہی درجے اس کے بڑھاتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص شام کے وقت ایک لعنت بھیجتا ہے تو اتنا ہی ثواب ملتا ہے۔

ابوحمزہ ثمالی کہتے ہیں: امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنے آقا و مولا امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہو کر عرض کیا: اے مولا ایک حدیث ہے جسے آپ کے پدر بزرگوار سے سنا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ، بیان کرواے شمالی۔

میں نے امام علیہ السلام کے سامنے حدیث پیش کی ۔ تب امام نے فرمایا: ہاں کی۔

اے شمالی کیا تم پسند کرتے ہو کہ اس میں کچھ میں بھی اضافہ کردوں۔ عرض کیا: بیشک مولاً !امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر کوئی شخص ان دونوں پر صبح میں ایک مرتبہ لعنت بھیجے گا۔ تو اس دن شام تک اس کا کوئی گناہ لکھا نہیں جاتا۔ اور اگر هنگام شب ان دونوں پر لعنت کرے گا تو اس شب میں صبح ہونے تک بھی کوئی گناہ نہیں ثبت ہوگا۔

ابو حمزہ کہتے ہیں: امام باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنے آقا امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہو کر عرض کیا : مولا! ایک حدیث ہے جسے آپ کےپدر بزرگوار اور جد سے سنا ہے:فرمایا: بیان کرواے ابوحمزہ ثمالی : میں نے حضرت کے سامنے حدیث بیان کی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : اے ابوحمزہ ثمالی یہ درست اور حق ہے، اس کے بعد فرمایا: لعنت کرنے والے کا ہزار ہزار درجہ میں اضافہ ہوتا ہے پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ وسعت دینے والا اور صاحب کرم ہے۔) شفاء الصدور ج ۲ / ۳۷۸، فرحتہ الزہرا علیہا السلام/ ۵۹(

تقرب خدا کی خاطر ملائکہ کیلئے لعنت بہترین ذریعہ

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:..... دشمنان علی پر عذاب ہو، ان لوگوں نے ( دشمنی علی کے ذریعہ ) پیغمبر اکرم کو جھٹلایا اور آنحضرت کے فرمودات کا انکار کیا ۔ کس طرح خدائے تبارک و تعالی فوق عرش سے ان پر بدترین لعنت کرتا ہے۔اور کس طرح حاملان عرش و کرسی ، حجابات ، زمین ، تمام آسمان ، ہوا اور جو کچھ کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے تک ہے۔ سب ان پر لعنت کرتے ہیں۔ کس طرح فرشته باران، ملائکه ابر نیز خشکی و دریا کے ملائکہ، آسمان کے سورج ، چاند، ستارے سنگریزے، کنکریاں، اور دیگر حیوانات سب ملکر ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر لعنت کے عوض دشمن کی جگہ کو پست سے پست قرار دیتا ہے۔ اور ان کی کیفیت اور حالت کو تا قیامت قابل نفرت اور بدترین حالت قرار دیتا ہے۔ یہ لوگوں کے درمیان قابل لعنت ہونے کے عنوان سے شہرت رکھتے ہیں اور ان لوگوں میں پہچانے جاتے ہیں جن پر غضب الہی نازل ہوتا ہے۔ یہ ( دشمنان اہلبیت ) شیطان کے دوست اور نمرود و فرعون کے ساتھی ہیں اور خداوند عالم کے دشمن قرار دئے گئے ہیں۔

یہ وہ عظیم عمل ہے جس کے ذریعہ بہترین ملائکہ، حجابات ، سارے آسمان، بارگاہ خدا میں تقرب حاصل کرتے ہیں۔

ہمارے دوستوں پر سلام و درود ہے اور ہمارے دشمنوں کے لئے لعنت و بیزاری ہ-ے) الامام العسکری علیہ السلام / ۶۱۶ ۳۶۱ / بحار الانوار ج ۶۸ /۷۹۳۷ ۔(

ہم انھیں زمانہ غیبت میں شیعہ ہونے کے لحاظ سے قبول کرتے ہیں،زمانہ غیبت امام عصر علیہ السلام ایک ایسا زمانہ ہے جس میں مؤمنین کے لئے اپنے دین وایمان کی حفاظت کرنا بہت دشوار ہے۔ چنانچہ روایت میں نقل ہے کہ آخری زمانہ میں دین پر باقی رہنا اسی طرح ہوگا جیسے ایک انسان اپنے ہاتھ میں انگاروں کے ٹکڑے کو اٹھائے .....!

یہ وہ زمانہ ہے جس میں آفتاب امامت و ولایت غیبت کے بادلوں کی اوٹ میں اور لوگ ان کے حضور کے فیض سے محروم ہیں، اگر چہ ان کے وجو دمبارک سے بہرہ مند ہورہے ہیں اور اگر ایک لمحہ بھی نظر عنایت نہ ہو تو کا ئنات باقی نہیں رہ سکتی ہے۔

یہ وہ زمانہ ہے جسے خداوند عالم نے تمام انسانوں خاص طور سے مؤمنین کے لئے امتحان و آزمائش کا زمانہ قرار دیا ہے۔ اور اس میں اگر کوئی امتحان سے گذرے اور استقامت و پائیداری کا مظاہرہ نہیں کریگا تو ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے اگر مؤمن اپنے وظیفہ اور ذمہ داریوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے دین کی حفاظت کرے تو اس کا مرتبہ پیغمبر اکرم کے اس صحابی سے بالا تر ہے جس نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمانہ حضور میں درک کیا ہے….. یہ ایک زمانہ ہے.. تم کیا جانو کہ یہ کیسا زمانہ ہے۔!!اسی لئے اہلبیت علیہم السلام نے زمانہ غیبت میں اپنے چاہنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ بلکہ ان کی نجات اور کامیابی کے لئے کچھ ذمہ داریاں قرار دے کر انھیں اس کی طرف متوجہ کیا ہے۔ انھیں ذمہ داریوں میں ایک اہم ترین ذمہ داری زمانہ غیبت میں تولا و تبرا ہے کہ اگر کوئی ان دونوں وظیفوں کا اہتمام کرتے ہوئے عمل کرے گا تو اہلبیت علیہم السلام کی رضا خوشنودی حاصل ہوگی اور ان کا واقعی شیعہ کہلانے کا حقدار ہوگا۔ چنانچہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:

زمانہ غیبت امام مہدی میں ہمارے وہ شیعہ قابل مبارکباد ہیں جو ہماری ولایت و محبت سے تمسک کرتے ہیں اور اسی راستہ پر ثابت رو کر ہمارے دشمنوں سے براءت کرتے ہیں۔ وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں۔ انھوں نے ہماری امامت تسلیم کی ہے ہم ان کے شیعہ ہونے کو قبول کرتے ہیں۔ وہ قابل مبارکباد ہیں۔ خدا کی قسم وہ قیامت کے دن ہمارے ساتھ ایک درجہ پر ہوں گے۔ )بحارالانوار، جلد۵۱، ص ۱۵۱(

دعائے صنمی قریش کی فضیلت

براءت کے اہم ترین آثار میں ایک اہم ترین برکت کا تذکرہ برائنتی دعا یعنی دعائے صنمی قریش میں بھی پایا جاتا ہے۔ جسے مرحوم شعمی رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ اہم اور عظیم الشان دعاؤں میں ہے جسے امیر المؤمنین علیہ السلام ہنگام سحر اور شب و روز پڑھتے تھے۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام اس دعا کو قنوت میں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے: جو شخص اس دعا کو پڑھے گا گویا اس نے پیغمبر کے روبرو جنگ بدر واحد میں دشمنوں کی طرف تیر چلایا ہے۔ (بعض روایتوں میں تو نقل ہوا ہے کہ جو شخص اس کو پڑھے گا اسے ایسے سو حج و عمرے کا ثواب ملیگا جو آنحضرت کے ساتھ بجالائے گئے ہوں۔ اور ہزار مہینے کے روزوں کا ثواب حاصل ہوگا قیامت کے روز اس کا حشر پیغمبراکرم اور ائمہ معصومین علہیم کے ساتھ ہوگا خداوند عالم اس کے تمام گناہ معاف کر دیگا اگر چہ آسمان کے ستاروں ریت کے ذروں اور درختوں کے پتوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں اور وہ قبر کے عذاب سے امان میں ہوگا )

وہ دعا یہ ہے:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ اللَّهُمَّ العَنِ صَلَمى قريش وجبتيها وَطاغُوتَيها وإفكيها وابنتيهما اللذين خالفا أمرَكَ وَ أَنكَرا وَحيكَ وَ جَحَدا إنعامَكَ وَعَصَيا رَسُولَكَ وَ قَلْبا دِينَكَ وَحَرَّفا كِتَابَكَ وَعَطلا أحكامك وأبطلا فَرائِضَكَ وَالحَدا في أياتِكَ وَعادَيا أولِيائِكَ وَ واليا أعدائكَ وَخَرَّبا بِلادَكَ وَأَفسَدا عِبادَكَ. اللَّهُمَّ العَنْهُما وَأتباعهما وَاَولِياءَهُما وَآشياءَهُما وَمُحِبيهما فَقَد أَحْرَبابَيتَ النبوَّةِ وَرَدَما بابَهُ وَنَقَضا سقفه والحقا سمانه بِأَرضِهِ وَعالِيهُ بِسافِلِهِ وَ ظَاهِرَةُ بِباطِنِهِ وَأَستَاصَلا أهلَهُ وَ أبادا أنصارَهُ وَ قَتَلا أطفالَهُ وَ أخليا مِنبَرَهُ مِن وَصِيَّهِ وَ وَارِثَ عِلمِهِ وَتَحَدا اِمامَتَهُ وَأَشرَ كا بِرَبِّهِما فَعَظِم ذَنَبَهُما وَخَلِدهُما في سَقَرٍ وَ ما أدراكَ مَا سَقَرِ لا تُبقى وَلا تَذَر . اللَّهُمَّ العَنْهُم بِعَدَدِ كُلّ مُنكَرِ أَتَوهُ وَ حَقٌّ أَخفَوهُ وَ . عَلَوهُ وَ مُؤْمِنٍ أَرجَودُ وَ مُنافِقِ وَلُّوهُ وَ وَلِي أَذَوةً وطريد اووه وَ صادِقٍ طَرَدُوهُ وَ كَافِرٍ نَصَرُوهُ وَ إِمَامٍ قَهَرُوهُ وَ فَرِضِ غَيْرُوهُ وَ أَثَرِ أَنكَرُوهُ و شَرِ اثَرُوهُ وَ دَمِ أراقوه وَ خَبرٍ بَدَّلُوهُ وَ كُفْرٍ نَصَبوه وَارِثٍ غَصَبُوه اقتَطَعُوهُ وَ سُحْتِ أَكَلُوهُ وَخُمْسٍ أَسْتَحَلُّوهُ وَ باطِلِ أَشَسُوهُ وَ جَورٍ بَسَطُوهُ وَ نِفَاقِ أَسَرُّوهُ وَغَدِرٍ أضمر وهُ وَظُلمٍ نَشَرُوهُ وَوَعَدٍ أَخلَفُوهُ وَ أَمانٍ خانُوه وَعَهِد نقضُوا وَ حَلالٍ حَرَّمُوا وَحَرامٍ أَحَلُوهُ وَبَطنِ فَتَقُوهُ جَنينٍ أَسقَطُوهُ وَضِلحٍ دَقُوهُ وَ صَلٍ مَزَّقُوهُ وشَملِ بَدَّدُوهُ وَعَزِيزٍ أَذَلُوهُ وَ ذَلِيلٍ أَعَزُوهُ وَ حَقٍ مَنَعوهُ وَ كِذِبِ دَلْسُوهُ وَ حُكمٍ قَلْبُوهُ وَ اِمام خالفُوهُ اللّهُمَّ العَنهُم بِكُلِّ آيَةٍ حَرَّفُوها وَفَرِيضَةٍ تَرَكُوها سُنَّةٍ غَيَّرُوها وَ رُسُومٍ مَنْعُوها وَ أَحكامٍ عَظَلُوها وَبَيعَةٍ نَكَثوها وَ دَعوَى أبطلُوها وَبَينَةٍ أنكَرُوها وَحيلَةٍ أحدثوها وَ خِيانَةٍ أَورَدُوها وَ عقبة ارتَقُوها وَ دِباب دحرجوها وأزيافٍ لَزِمُوها و شهاداتٍ كَتَمُوها وَوَصِيَّةٍ ضَيَّعُوها . اللّهُمَّ العَنهما فى مَكنُونِ السّرِ وَ ظاهِرِ العَلانِيَةِ لَعناً كَثيراً أَبَداً دائماً دائِباً سَرَمَداً لاَ انقِطاعَ لِأَمَدِهِ وَ لا نَفادَ لعَدَدِهِ لَعناً يَعْدُو أوّلُهُ وَ لا يَرُوحُ آخِرُهُ لَهُم وَ لأعوانهم و أنصارِهِم وَ مُحِبّهِمْ وَ مُواليهم و المُسّلَمينَ لَهُم وَ المائِلين اليهم وَ النَّاهِضين باحتجاجهم و المُقتدين بكلامهم وَ المُصدِّقِينَ بأحكامهم .

چار مرتبہ ہے :أللهُمَّ عَدِيهُم عَذاباً يَستَغيثُ منه أهلُ النَّارِ. أمينَ رَبّ العالمين. )البلد الامین : ۵۵۱(

دشمنانِ اہلبیت علیہم السلام کون ہیں؟

امام باقر علیہ السلام حنان بن سدیر سے فرماتے ہیں: بیشک ان دونوں نے ہمارے حق میں ظلم کیا ہے، اور انھوں نے ہمیں ہمارے ہی سرمایہ و اموال سے محروم کیا ہے۔ سب سے پہلے یہی دونوں ہمارے امور پر مسلط اور قابض ہوئے ، اور ہماری حرمت پائمال کر کے دین مقدس اسلام کی حرمت پائمال کیا ہے کہ جب تک ہمارا ” مہدی“ قیام نہیں کرے گا اور ہمارا متکلم کلام نہیں کرے گا۔ ( ہماری بات مقدم نہیں ہوگی ) اس وقت تک اس ( نقصان کا ) جبران نہیں ہو سکتا ہے خدا کی قسم ہم اہلبیت". کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر ان دونوں کے توسط سے ہی اس مصیبت کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ لہذا ان دونوں پر خدا، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ )کافی جلد ۱۸، ص ۲۴۵ ۳۴۰(

امام باقر علیہ السلام کے صحابی گرانقدر جناب کمیت، جو شاعر بھی تھے ۔ جب امام سے ان دونوں کے متعلق دریافت کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ” کوئی ایسا (ناحق) خون زمین پر نہیں بہایا گیا اور کوئی حکم اللہ ، رسول اور امیر المؤمنین کے حکم کے خلاف نہیں صادر کیا گیا مگر یہ کہ ان میں یہ دونوں شریک ہیں۔ )رجال کشی / ۱۸۰(

اور یہ تو سب ہی کے لئے واضح ہے کہ جب یہ دونوں مکر وفریب کے انداز میں حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں معذرت کے لئے پہونچے اور شہزادی عالم نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا بلکہ فرمایا: یہ بتاؤ کیا تم دونوں نے میرے پدر بزرگوار سے یہ سنا ہے:

فاطمة بضعة ميّي فمن آذاها فقد آذانى )الامامة والسياسة / ۱۴(

فاطمہ میرا پارہ جگر ہے جس نے انھیں اذیت پہونچائی اس نے مجھے اذیت پہونچائی۔

دونوں نے جواب دیا ہاں ہم نے سنا ہے۔

تب شہزادی عالم نے ان دونوں سے فرمایا:انى أشهد الله وملائكته انكما اسختمانى وما ارضيتمانی و لئن لقیت النبی صلی الله علیه و آله و سلم لا شكوتكما اليه . )اعلام النساء ج ۴ / ۱۲۳(

”خدا اور ملائکہ کو گواہ قرار دیتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا اور تم دونوں نے مجھے راضی نہیں کیا ہے۔ اور جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کروں گی تو ضر ور تم دونوں کی شکایت کروں گی ۔“

یہ چند روایتوں کا مختصر بیان تھا۔ یہ بات روشن ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کے دشمن فقط انھیں لوگوں میں منحصر نہیں ہیں بلکہ ان کی پیروی کرنے والے ان کے راستہ پر چلنے والے اور جو ان کے کاموں سے راضی تھے اور آج بھی راضی ہیں۔ یا ان سے براءت کرنے کو گناہ خیال کرتے ہیں۔ اور ہر وہ شخص جو روز قیامت تک خاندان عصمت و طہارت کی باعظمت بارگاہ یا ان کے مشن پر ذرہ برابر بھی ظلم وستم کا مرتکب ہوتا ہے۔ وہ ان کے دشمنوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اگر کوئی شخص اہلبیت سے محبت و دوستی کا دعوی کرے۔ مگر کوئی ایسا کام انجام دے، یا کوئی ایسی بات کہے: یا کوئی مصلحتاً خاموشی اختیار کرے جو اہلبیت کی شان و عظمت اور ہدف کے خلاف ہو تو وہ براہ راست یا غیر براہ راست دشمنان اہلبیت کے گروہ میں قرار پائیگا۔

اسی لئے روز جمعہ وقت عصر دعائے غیبت میں پڑھتے ہیں:اللّهُمَّ لَا تَجْعَلنى خصماء .... فأجرنى) مفاتیح الجنان، دعا در غیبت امام زمانہ علیہ السلام(

"خدایا! مجھے آل محمد کے دشمنوں میں اور ان سے اختلاف کرنے والوں میں نہ قرار دینا۔ مجھے ان لوگوں میں قرار نہ دینا جو آل محمد سے عداوت وکینہ رکھتے ہیں، تجھ سے ان باتوں میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔ لہذا مجھے پناہ دیدے اور میں تیرے سایہ میں آنا چاہتا ہوں لہٰذا مجھے جگہ دیدے۔“

جاری ہے....

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .